★ســبــق آمـــوز کــہـــانــیـــاں★

قصوروار کون ہے ؟؟؟​

شہرِ بنگلور کا ایک دردناک واقعہ! جہاں ایک خوشحال گھرانہ بسا کرتا تھا۔ جسمیں میاں بیوی اور انکے دو بچے (ایک لڑکی اور ایک لڑکا) رہتے تھے۔ ابتداءً گھر کے حالات خوشگوار تھے شوہر اپنے بیوی بچوں کا پورا حق ادا کرتا تھا۔ گھر میں کسی قسم کی کوئی رکاوٹ نہیں تھی۔ روزانہ شوہر کام پر نکل جاتا اور شام تک گھر والوں کے لئے ڈھیر ساری چیزیں لے آتا۔ وقتاً فوقتاً گھر والوں کو گھمانے بھی لے جاتا۔
​پھر اچانک​ ،
تقدیر کے فیصلے سے شوہر کا انتقال ہو گیا، بچے بہت چھوٹے تھے، اب انکی ماں نے پرورش کا ذمہ اٹھایا۔ روزانہ صبح و شام گھرے گھر جاکر برتن مانجھتی اور انہیں پیسوں سے گزارا کرتی۔ لیکن ان پیسوں سے اب بڑے گھر کا کرایہ، بچوں کے مہنگے اسکول کی فیس ادا نہیں ہو پاتی۔ پھر کیا تھا، مجبوراً اسے گھر چھوڑکر ایک جھونپڑی کو آشیانہ بنانا پڑتا، اب بچے اسکول نہیں جاتے، وہ بھی اپنی ماں کے ہمراہ ذلت سہنے نکل جاتے۔
اس دوران اس عورت نے اپنے سارے رشتے داروں سے مدد کی بھیک مانگی، مگر انمیں سے بعض جو مالدار تھے یوں کہنے لگے ​"ہم اپنی زکات مدرسے میں دے چکے، ابھی ہم مدد نہیں کر سکتے"​۔ کسی نے سوائے ترشروئی کے کوئی امداد نا کی۔
ایسے ہی زندگی گزرتی رہی، پھر ایک دن وہ حسبِ معمول کام پر چلی گئی، جس گھر میں وہ کام کرتی تھی وہ ایک عیسائی کا گھر تھا، اس نے اس عورت کا حال دریافت کیا، تب اس عورت نے سارا ماجرا سنایا۔
وہ عیسائی کہنے لگا "کیا تمہارے رشتے دار تمہاری مدد نہیں کرتے؟، کیا تمہاری قوم والے تمسے حال پوچھتے نہیں؟" ​اس عورت نے آنکھوں کے اشکوں سے جواب دیا۔​
اس عیسائی نے اپنے بڑے گھر میں نوکروں کے کمرے میں انہیں ٹھہرایا اور کہا "اب فکر کی کوئی بات نہیں! میں تمہارا اور تمہارے بچوں کا سارا خرچ برداشت کروں گا، میں تمہیں اپنے مذہب میں آنے پر مجبور بھی نہیں کروں گا".
چناچہ، ویسا ہی ہوا۔
​مگر!​
وہ عورت اس عیسائی سے متاثر ہوکر اپنے بچوں سمیت مرتد ہو گئی۔
آج اسی کا بیٹا گرجا گھر کا پادری ہے۔
اب اس عورت کے پاس کوئی مسلمان سمجھانے کے لئے جاتا ہے تو وہ آگ بگولہ ہو جاتی ہے، گویا ساری مسلمان قوم ہی اسکے قصوروار ہوں۔


✍️: محمد ظہور مصطفی ۔

______________

=*=*=*=*=*=*=*=*=*=*=*=*=*=*=*=*=*=*=*=*==*=*=*=*=*==*=*=*=*=*=*=*=*=*=*=*=*=*=*=*=*=*=*=*=*=*=*=*=*=*=*=*=*=*=